no-image

Sajde Main Dua Mangna Kaisa?

سجدے میں دعا مانگنا کیسا؟

مجیب:مولانا جمیل غوری صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: FMD-1453

تاریخ اجراء:16شوال المکرم1440ھ/20جون2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ بعض لوگ نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے بجائے سجدے میں جاکر دعا مانگتے ہیں۔  تو کیا سجدے میں دعا مانگ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     نماز پڑھنے کے بعد صرف دُعا کرنے کے لیے سجدے میں جانا بغیر کسی سبب کے سجدہ کرنا ہے اور بلا سبب سجدہ کرنا فقہ حنفی میں جائز  ومباح ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں البتہ  فقہِ شافعی میں اسےناجائز قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اختلافِ ائمہ کرام کی رعایت  کرتے ہوئے ، وہ راہ اختیارکرنا بہتر ومناسب ہے کہ  جس میں سب کا اتفاق ہےیعنی اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی نیت سے یا دُعا کی توفیق ملنے پر شکربجالانے کی نیت سے سجدہ ادا  کرے کہ سجدہ شکر بالاتفاق جائز ہے  ۔ پھر اس میں جو چاہے دعا کرے  اورحالتِ سجدہ میں کی جانے والی دعا قبولیت میں  بلاشبہ خاص تاثیر رکھتی ہے کہ اس حالت میں بندے کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں زیادہ قرب نصیب ہوتا ہےاوراس بناء پردعاؤں کی قبولیت کی امید زیادہ  بڑھ جاتی ہے ۔

”احسن الوعاء لآداب الدعاء “میں  ہے”ادب ۱۰، ۱۱، ۱۲:دعا کے وقت باوضو، قبلہ رُو، مُؤدّب (با ادب) دو زانو بیٹھے یا گھٹنوں کے بل کھڑا ہو۔قال الرضا: یا بہ نیتِ شکرِ توفیقِ دعا والتجاء اِلَی اللہ، سجدہ کرے کہ یہ صورت سب سے زیادہ قُربِ رب کی ہے، قالہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم۔“(یعنی یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے ۔)

(فضائل دعا،صفحہ 62،مطبوعہ مکتبۃالمدینۃ،کراچی)

    امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے مذکور بالا حاشیے میں درج ذیل حدیث شریف کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

    مسلم شریف  میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث شریف میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثروا الدعاء“یعنی سجدے کی حالت میں انسان سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں زیادہ دعا مانگا کرو۔

(صحیح مسلم، جلد 1 ، صفحہ 350 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

    علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ”مرقاۃ“ میں اور علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ ”شرح سنن ابی داؤد“ میں اس حدیث مبارک کےتحت فرماتے ہیں(والالفاظ للعینی):”لانہ حالۃ تدل علی غایۃ تذلل و اعتراف بعبودیۃ نفسہ و ربوبیۃ ربہ،  فکانت مظنۃ  اجابۃ فلذلک امر علیہ السلام باکثار الدعاء فی السجود “یعنی چونکہ سجدے کی حالت انتہائی عاجزی پر اور اپنے آپ کے بندہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر دلالت کرتی ہے لہٰذا یہ حالت (سجدہ) قبولیت دعا کا سبب ہے، اور اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدوں میں زیادہ دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

(شرح سنن ابی داؤد، جلد4،صفحہ82 ، مطبوعہ ریاض )

    مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں”یعنی رب تو ہم سے ہر وقت قریب ہے ہم اس سے دور رہتے ہیں البتہ سجدے کی حالت میں ہمیں اس سے خصوصی قرب نصیب ہوتا ہے ،لہٰذا اس قرب کو غنیمت سمجھ کر جو مانگ سکیں، مانگ لیں بعض لوگ سجدے میں گرکر دعائیں مانگتے ہیں یعنی دعا کے لئے سجدہ کرتے ہیں ان کا ماخذ یہ حدیث ہے۔ “(ملتقطاً)

(مرآۃ المناجیح، جلد2، صفحہ81، قادری پبلشرز لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

please wait...