no-image

Lanat Karne Ka Hukum?

لعنت کرنے کا حکم؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-9075

تاریخ اجراء:27محرم الحرام1441ھ/27ستمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انسان بالخصوص مسلمان اور دوسری اشیاء مثلا : سواری کے جانور وغیرہ پر لعنت کا شرعی حکم بالتفصیل مع الدلائل ارشاد فرمادیں۔

سائل:محمد ارسلان (بورے والا ،ضلع وہاڑی )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    لعنت کر نا بہت سخت چیز ہے کسی چیز مثلا:ہوا ،سواری کے جانور وغیرہ پریا  کسی معین شخص پر خواہ وہ مسلمان ہو یا کافرلعنت کر نا ،جا ئز نہیں سوائے ان کفار کے جن کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہو ۔ جیسے ابو لہب،ابو جہل وغیرہ ،تاہم غیر معین کفار اور گنہگار وں پر لعنت کی جا سکتی ہے ۔ جیسے اس طرح کہنا کہ کافروں پرلعنت ، جھوٹوں پر لعنت ، مگر اس کی بھی عادت نہ ڈالی جا ئے۔

    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ لیس المؤمن بالطعان ولااللعان ولاالفاحش ولاالبذی‘‘ترجمہ:مومن نہ طعن کرنے والاہوتاہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا اور نہ بیہودہ ہوتاہے۔                              

(جامع ترمذی ،کتاب البر والصلہ ،باب ماجاء فی اللعنۃ ،جلد2،صفحہ462،مطبوعہ لاھور)

    حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :’’إن العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق أبواب السماء دونها، ثم تهبط إلى الأرض فتغلق أبوابها دونها، ثم تأخذ يمينا وشمالا، فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن، فإن كان لذلك أهلا وإلا رجعت إلى قائلها‘‘ترجمہ: جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کو جاتی ہے، آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر زمین پر اترتی ہے، اس کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں پھر دہنے بائیں جاتی ہے، جب کہیں راستہ نہیں پاتی تو اس کی طرف آتی ہے جس پر لعنت بھیجی گئی، اگر اسے اس کا اہل پاتی ہے تو اس پر پڑتی ہے، ورنہ بھیجنے والے پر آجاتی ہے۔

(سنن ابو داؤد،کتاب الادب ،باب فی اللعن ،جلد2،صفحہ330،مطبوعہ لاھور)

    صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے اپنی سواری کے جانور پر لعنت کی، رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس سے اتر جاؤ، ہمارے ساتھ میں ملعون چیز کو لے کر نہ چلو، اپنے اوپر اور اپنی اولاد و اموال پر بددعا نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت میں ہو جس میں جو دعا خدا سے کی جائے ، قبول ہوتی ہے۔‘‘

(صحیح مسلم ،کتاب الزھد ،باب حدیث جابر ،جلد2،صفحہ416،مطبوعہ کراچی )

    مشکوۃ شریف میں ترمذی شریف کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ’’ہوا‘‘ پر لعنت کی ، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’لا تلعنوا الریح فانھا مامورۃ وانہ من لعن شیئالیس لہ باھل رجعت اللعنۃ علیہ‘‘ ترجمہ:ہوا پر لعنت نہ کرو ، یہ تو زیر فرمان ہے اور جو کسی ایسی چیز کو لعنت کرے ، جو اس کے لائق نہ ہوتو لعنت خود کرنے والے پر لوٹتی ہے ۔

    اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ یعنی ہوا لعنت کی مستحق نہیں،اب جو اس پر لعنت کرے گا تو وہ لعنت خود اس کی اپنی ذات پر پڑے گی۔اس سے معلوم ہوا کہ جانوروں پر لعنت یا زمانہ کو بُرا کہنا۔۔سب ناجائز ہے۔‘‘

(مراۃ المناجیح ،جلد2،صفحہ401،ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاھور)

    رد المحتار میں ہے:’’ھی لاتکون الا لکافر،ولذا لم تجزعلی معین لم یعلم موتہ علی الکفربدلیل وان کان فاسقا متھورا کیزید علی المعتمد،بخلاف نحو ابلیس وابی لھب وابی جھل فیجوز،وبخلاف غیر المعین کالظالمین والکاذبین فیجوز ایضا ‘‘ترجمہ: لعنت کافر کو ہی کی جا سکتی ہے،اور اسی وجہ سے کسی معین پر کہ جس کی موت کفر پر ہو نا کسی دلیل سے معلوم نہ ہو جا ئز نہیں اگر چہ وہ فاسق وفاجر ہوجیسے کہ یزید معتمد قول کے مطابق ،بخلاف ابلیس،ابو جہل اور ابولہب کے کہ ان پر لعنت کر نا ، جائز ہے ،اور بخلاف غیر معین کے یعنی غیر معین جیسے ظالموں ،جھوٹوں پر لعنت کرنا بھی جائز ہے۔                                                                           

(رد المحتار ،جلد 5،صفحہ53، مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:’’لعنت بہت سخت چیزہے ہرمسلمان کو اس سے بچایاجائے بلکہ لعین کافرپر بھی لعنت جائزنہیں جب تک اس کا کفرپر مرناقرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد21،صفحہ222 ، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الر حمۃ ایک جگہ فرماتے ہیں :’’ کسی معین پر لعنت کرنا ، جائز نہیں سوا ان کفار کے جن کا کفر پر مرنا نص میں آچکا، غیر معین گنہگار پر بھی لعنت جائز ہے مثلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ کافروں پر یا جھوٹوں پر لعنت مگر اس کی عادت مت ڈالو جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے۔ ‘‘

(مرأ ۃ المناجیح ، جلد1،صفحہ41،ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاھور)                                                                                                               

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

please wait...