no-image

2 Peeron Ka Mureed Hona Kaisa?

دوپِیروں کا مرید ہونا کیسا ؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:har:5139

تاریخ اجراء:13جمادی الاولی1440ھ/20جنوری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی کسی پیر کا مرید ہو اور اب دوسرے سلسلے میں مرید ہونا چاہتا ہو ، تو کیا وہ دوسرے سلسلے میں مرید ہو سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دوسرے سلسلے میں مرید ہونے سے مراد اگر پہلے جامعِ شرائط پیر کی بیعت ختم کر کے،دوسرے سے مرید ہونا ہے ، تو یہ ناجائز ہے کہ کسی شرعی ضرورت کے بغیر پیر بدلنا جائز نہیں اور ضرورتِ شرعی سے مراد پہلے پیر کا جامعِ شرائط نہ ہونا ہے۔اسی طرح پہلے جامعِ شرائط پیر صاحب سے اپنی بیعت قائم رکھتے ہوئے دوسری جگہ مرید ہونے کی بھی اجازت نہیں،اس سے بھی ضرور بچنا چاہیے ، کیونکہ  دو جگہ مرید ہونے والا کسی طرف سے بھی فیض نہیں پاتا۔

     البتہ ایک پیر کا مرید رہتے ہوئے دوسرے پیر سے طالب ہو سکتے ہیں اور طالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جامعِ شرائط پیرہی کا مرید رہے اور دوسرے جامعِ شرائط پیر سے بھی فیض حاصل کرنے کے لیے طالب ہوجائے ، ہاں یہ ضروری ہے کہ اُس سے جو کچھ حاصل ہو ، اُسے اپنے پیر ہی کی عطا جانے۔

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن بلاضرورتِ شرعی پہلے پیر کی بیعت ختم کر کے دوسرے پیر سے بیعت ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:” تبدیلِ شیخ بلا ضرورتِ شرعیہ جائز نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ،ج26 ،ص577،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

     نیز ایک پیر کا مرید ہوتے ہوئے دوسرے پیر سے مرید ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:” جو شخص کسی شیخ جامعِ شرائط کے ہاتھ پر بیعت ہو چکا ہو ، تو دوسرے کے ہاتھ پر بیعت نہ چاہیے ۔اکابرِ طریقت فرماتے ہیں: لا یفلح مرید بین شیخین (جو مرید دو پیروں کے درمیان ہو ، وہ کامیاب نہیں ہوتا)۔“(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص579 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     ایک ہی پیر سے مرید ہونے کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے عارف باللہ علامہ عبد الغنی بن اسماعیل نابُلسی علیہ رحمۃ اللہ القوی کشف النور عن اصحاب القبورمیں فرماتے ہیں:”مرید کا مخصوص شیخ(یعنی پیر)سے عقیدت و نسبت رکھنا اور اس کے مخصوص نقشِ قدم پر چلنا ایک خاص مقصد ہے ، کیونکہ ظاہری اعمال میں جس طرح مقلد اگر مجتہد نہ ہو،تو وہ کسی مخصوص مذہب پر چلنے کا محتاج ہوتا ہے ۔ مثلاً حنفی حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تقلید کرتا ہے اور شافعی حضرتِ سیِّدُنا محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمۃ کی تقلید کرتا ہے وغیرہ،اسی طرح معرفتِ الٰہی حاصل کرنے والا راہِ طریقت میں ایک مخصوص شیخ کا محتاج ہوتا ہے تاکہ اس شیخ سے محبت اور عقیدت کے سبب اسے برکتیں ملیں۔“(فیضانِ مزاراتِ اولیاء،ص120، 121،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     اپنے پیر کا مرید رہتے ہوئے دوسرے پیر سے طالب ہونے کے متعلق سیِّدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”دوسرے جامعِ شرائط سے طلبِ فیض میں حرج نہیں اگرچہ وہ کسی سلسلۂ صریحہ کا ہو اور اس سے جو فیض حاصل ہو ، اسے بھی اپنے شیخ ہی کا فیض جانے۔کما فی سبع سنابل مبارکۃ عن سلطان الاولیاء امام الحق و الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ(جیساکہ سبع سنابل شریف میں سلطان الاولیاء امام الحق و الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے)۔“(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص579 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     مفتیِ اعظم ہند حضرتِ علامہ محمد مصطفیٰ رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”بیشک ایک جامع الشروط(پیر)کے ہاتھ پر بیعتِ صحیح کرے،پھر دوسرے سے بیعت ٹھیک نہیں،طلبِ فیض کرسکتا ہے(یعنی طالب ہو سکتا ہے)۔“(فتاویٰ مصطفویہ،ص537،مطبوعہ شبیر برادرز،لاهور)

     تنبیہ ! یاد رہے کہ پیر کی چار شرائط ہیں ۔ ان میں سے ایک بھی کم ہو ، تو بیعت کرنا اور اس سے طالب ہونا ، جائز نہیں۔

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”پیری کے لیے چار شرطیں ہیں۔قبل از بیعت ان کا لحاظ فرض ہے۔او ل : سنی صحیح العقیدہ ہو۔دوم:اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔سوم:فاسق مُعلِن نہ ہو۔چہارم:اُس کا سلسلہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہو۔“(بھار شریعت،ج1،ص278،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

please wait...