no-image

سونے کو سونے کے بدلے بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سونے کے زیور بناتے ہیں اور دکانداروں کو بیچتے ہیں اس میں ہمارا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہم جب سونا بیچتے ہیں تو اس کے بدلے سونا ہی لیتے ہیں مثال کے طور پراگر دس تولے سونا ہم نے دکاندار کو بیچاتو اس کے بدلے میں دس تولہ سونا ہی لیتے ہیں لیکن دکاندار ایک تولہ سونا نَقْد دیتا ہے اور بقیہ سونا ادھار کر لیتا ہے ۔ اس طرح عَقْد کرنا جائز ہے یا نہیں؟اس کی تفصیل یہ ہے دوکاندار  کارخانہ والے سے زیورات خریدتا ہے وہ چوبیس کیرٹ(Karat)کے نہیں ہوتے لیکن ان کے بدلہ جو سونا وہ حاصل کرتا ہےوہ چوبیس کیرٹ کا ہوتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     یہ عقد صرف ناجائزہی نہیں بلکہ خالص سُودی معاملہ ہے ایسا کرنا حرام اور جو آمدنی حاصل ہو وہ سود اور مالِ حرام ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ جب سونا بیچو تو ہاتھوں ہاتھ اور برابر برابر بیچولیکن آپ کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے میں ادھار بیچا جا رہا ہے، لہٰذا خاص سودی معاملہ ہوا۔حدیثِ پاک میں ہے’’عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم:اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ، وَالْبُرُّبِالْبُرِّ، وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ، وَالتَّمْرُبِالتَّمْرِِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مَثَلاً بِمَثَلٍ، یَداً بِیَدٍ، فَمَنْ زَادَ، اَوِاسْتَزَادَ، فَقَدْ اَرْبیٰ، اَلآخِذُوَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَاءٌ‘‘ترجمہ: حضرت سیّدنا ابو سعید خدریرضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جَو جَو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ بیچا جائے، پس جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملہ کیا،اس معاملے میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔(مسلم،ص659، حدیث:4064)

     صدرُ الشّریعہ بدرُ الطّریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے تو شرط یہ ہے کہ دونوں وَزْن میں برابر ہوں اور اُسی مجلس میں دست بَدَست (ہاتھوں ہاتھ) قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے، اگر عاقدین(سودا کرنے والوں) نے ہاتھ سے قبضہ نہیں کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھ دی اور اُس کی چیز لے کر چلا آیا،یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہوگئی بلکہ سود  ہوا ۔(بہار شریعت،2/821)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

please wait...