Jaye Pedaish Ke Watan Asli Hone Ka Kya Matlab Hai ?
جائے پیدائش کے وطن اصلی ہونے کا
مطلب
مجیب:محمد ساجد عطاری
مصدق:مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:112
تاریخ اجراء: 10 ربیع الثانی1435ھ/11فروری2014ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
(1) جو انسان جس جگہ پیدا
ہوتا ہے، وہ اس کا وطنِ اصلی ہے، تو اگر کوئی بچہ سفر میں کسی
اور جگہ جہاں اس کے ماں باپ کا وطنِ اصلی نہیں ہے پیدا ہوا، تو
کیا اب بھی وہ جگہ اس کا و طنِ اصلی کہلائے گی ؟
(2)
اور جوان ہونے کے بعد اگر وہ اپنی رہائش ،اس جائے پیدائش کے علاوہ کسی
اور جگہ رکھ لے تو کیا اس کا وہ جائے پیدائش والا وطنِ اصلی ختم
ہو جائے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)اگر بچہ سفر میں
کسی ایسی جگہ پیدا ہوا کہ جہاں اس کے ماں باپ نہیں
رہتے، تو وہ جگہ اس بچے کے لیے وطن اصلی نہیں کہلائے گی
اور جوفقہائے کرام نے جائے پیدائش کو وطن اصلی قرار دیا ہے، تو
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلقاً جہاں بھی پیدائش ہو جائے وہ
وطن اصلی بن جائے گا، بلکہ مراد وہ جائے پیدائش ہے، جہاں اس کی
ماں باپ کی اور تبعاً اس بچے کی رہائش ہوتی ہے۔
اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
امام قاضی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’ بان کان مولدہ وسکن فیہ اولم یکن
مولدہ ولکنہ تاھل بہ وجعلہ دارا‘‘ترجمہ: وطنِ اصلی وہ جگہ ہے جہاں اس کی
پیدائش ہو اور وہاں اس کی سکونت ہویا وہاں اس کی پیدائش
نہ ہو لیکن اس کے اہل وعیال وہاں ہوں اور اس جگہ کو اس نے گھر بنا لیا
ہو۔ )فتاوی قاضی خان ،جلد1،صفحہ148، مطبوعہ کوئٹہ(
اور بعض فقہائے کرام نے تو وطن اصلی کی
وضاحت ہی یوں فرمائی ہے کہ جو انسان کی رہائش گاہ ہے، وہی
اس کا وطن اصلی ہے ،چاہے وہ اکیلا وہاں رہتا ہے یا اہل و عیال
کے ساتھ رہتا ہے یا وہاں پیدا ہوا ہے۔
چنانچہ
شرح وقایہ اور درر شرح غرر میں ہے: ’’ الوطن الأصلی ھو المسکن‘‘یعنی انسان کی رہائش
گاہ اس کا وطن اصلی کہلاتی ہے۔)درر شرح غررمع حاشیہ شرنبلالی
، جلد1، صفحہ378، مطبوعہ اولوا الالباب(
علامہ شرنبلالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ درر کی
مذکورہ بالا عبارت کے تحت لکھتے ہیں:’’اراد بہ الأعم من أن یکون
بنفسہ فقط ولا عیال لہ أو بأھلہ کأن تأھل فیہ
ومن قصدہ التعیش لا الارتحال، وکذا محل مولدہ وطن أصلی وھذا
الوطن وطن القرار‘‘ترجمہ: مصنف نے مسکن (رہائش گاہ ) میں عموم مرادلیا
ہے یعنی فقط تنہا بغیر اہل و عیال کے کسی جگہ رہائش
رکھ لے ، یا اہل و عیال کے ساتھ رہائش رکھ لے بایں طور کہ وہاں
شادی کر کے وہیں مستقل رہنے اور وہاں سے نہ جانے کا ذہن بنا لے ۔
یونہی جائے پیدائش بھی وطن اصلی ہے اور اس وطن کو
وطن قرار بھی کہتے ہیں ۔)درر شرح غررمع حاشیہ شرنبلالی
، جلد1، صفحہ378، مطبوعہ اولوا الالباب(
اور عادۃً چونکہ جس جگہ پیدائش ہوتی
ہے وہی اس کے ماں باپ کی مستقل رہائش گاہ ہوتی ہے، بچہ بھی
وہیں نشو و نما پاتا ہے اور وہیں رہائش رکھتا ہے، اس لیے فقہائے
کرام مطلقاً یہی فرما دیتے ہیں کہ بچے کی جائے
ولادت اس کا وطن اصلی ہے۔
(2)
اگرکوئی آدمی اپنی جائے پیدائش کو چھوڑنے
اور اس کو دوبارہ وطن نہ بنانے کا عزم مصمم کرکے اپنے اہل و عیال کو لے کر
مستقل طور پر کسی دوسری جگہ شفٹ ہو جائے یعنی اپنی
رہائش دوسری جگہ رکھ لے، تو اب اس کی جائے پیدائش وطن اصلی
نہیں رہے گی۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ
کو چھوڑ کر مدینہ منورہ کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنا لیا اور
پھر بعد میں جب مکہ میں آئے ،تواپنے آپ کو مسافر شمارکیا
اور فرمایا: ہم یہاں مسافر ہیں ۔اور اگر دوسری جگہ
مستقل رہائش نہیں رکھی یا اہل و عیال کو یہاں سے لے
کر نہیں گیا، تو پھر اس کا یہ وطن اصلی ختم نہیں
ہوگا۔
فتاویٰ عالمگیری اور
تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے:’’ویبطل الوطن الأصلی
بمثلہ أی بالوطن الأصلی لما ذکرنا، ولھذا عد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفسہ بمکۃ
مسافرا حیث قال فإنا قوم سفر ھذا إذا انتقل عن الأول بأھلہ وأما
إذا لم ینتقل بأھلہ ولکنہ استحدث أھلا ببلدۃ أخری
فلا یبطل وطنہ الأول ویتم فیھما‘‘ ترجمہ : وطن اصلی اپنی مثل
یعنی دوسرے وطن اصلی کے ذریعے باطل ہو جاتا ہے اس وجہ سے
جو ہم نے پہلے بیان کی ، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو مکہ میں
مسافر شمار کیا اور فرمایا : ہم یہاں مسافر ہیں ۔
اور یہ اس قت ہے، جبکہ اپنے اہل و عیال کو لے کر دوسری جگہ
منتقل ہو گیاہو ۔ اور اگر وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر دوسری
جگہ منتقل نہیں ہوا، بلکہ کسی دوسرے شہر میں بھی
اپنے نئے اہل بنا لیے (یعنی
دوسرے شہر میں شادی کر لی)، تو اب اس کا پہلا وطن باطل نہیں
ہوگا،بلکہ وہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا۔)تبیین الحقائق، جلد1،
صفحہ517، مطبوعہ مکتبہ محمدیہ آباسین روڈ چمن(
درمختار وردالمحتار میں ہے:’’یبطل بمثلہ إذا لم یبق لہ
بالأول أھل( أی وإن بقی لہ فیہ عقار قال فی
النھر: ولو نقل أھلہ ومتاعہ ولہ دور فی البلد لا تبقی وطنا لہ
وقیل تبقی کذا فی المحیط وغیرہ) فلو بقی لم یبطل
بل یتم فیھما‘‘والعبارۃ بین الھلالین من ردالمحتارترجمہ: وطن
اصلی اپنی مثل کے ساتھ باطل ہو جاتا ہے، جبکہ پہلی جگہ پر اس کے
اہل باقی نہ رہیں یعنی اگرچہ زمین وغیرہ ہو ،صاحب
نہر لکھتے ہیں : ’’اگر کسی نے اپنے اہل و سامان کو دوسری جگہ
شفٹ کر دیا، لیکن اس کا گھر وغیرہ پہلے شہر میں باقی
ہے، تب بھی پہلا شہر اس کا وطن اصلی نہیں رہے گا اور ایک
قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں پہلا شہر وطنِ اصلی باقی
رہے گا۔ جیسا کہ محیط وغیرہ میں ہے۔‘‘اور اگر
کوئی دوسری جگہ منتقل ہوا اور اس کے اہل پہلی جگہ پر باقی
ہیں، تو اب وطنِ اصلی باطل نہ ہوگا، بلکہ دونوں جگہ پوری نماز
پڑھنی ہوگی۔
)درمختار مع ردالمحتار ، جلد2، صفحہ739،
مطبوعہ کوئٹہ(
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاویٰ
شامی کے حاشیہ جدالممتارمیں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اقول: یظھر للعبد الضعیف
انّ نقل الاھل والمتاع یکون علی وجھین: احدھما:ان ینقل علی
عزم ترک التوطّن ھاھنا، والآخر:لا علی ذلک، فعلی الاوّل لا یبقی
الوطن وطناً وان بقی لہ فیہ دُور وعقار، وعلی الثانی یبقی
فلیکن المحمل للقولین، وبمثل ھذا یجری الکلام فی
موت الزوجۃ، فافھم،واللہ تعالی اعلم‘‘ترجمہ:میں کہتاہوں: ’’جوعبدضعیف پر ظاہرہواوہ یہ ہے کہ اپنے اہل و سامان
کا منتقل کرنا دوطرح سے ہوتا ہے ۔ایک تو یہ ہے کہ اس طرح منتقل
ہو کہ اب آئندہ اس جگہ کو دوبارہ وطن نہ بنانے کا پکا ارادہ کر چکا ہے اور
دوسرا یہ کہ اس طرح کا عزم نہیں ہے ۔ تو پہلی صورت میں
وہ جگہ وطن اصلی باقی نہیں رہے گی اگرچہ وہاں گھر و زمین
موجود ہو اور دوسری صورت میں وہ جگہ وطن باقی رہے گی پس
چاہئے کہ ان دونوں قولوں کایہی محمل ہو اوراسی کی مثل
کلام زوجہ کی موت کے بارے میں بھی جاری ہوگا،فافھم ،واللہ تعالیٰ اعلم ۔‘‘ )جدالممتار علی ردالمحتار ،
جلد3،صفحہ572،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
