Global Options

Introduction

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

          اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ ط بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی
 دعوتِ اسلامی اور دارالافتاء اہلسنّت

اَ زقلم : استاذ الفقہ مفتی علی اصغر العطاری المدنی

          نوٹ:۔ مفتی صاحب نے یہ مضمون 2012؁ء میں فتاوی اہل سنت کے ابتدایہ کے طور پر لکھا تھا اسی مضمون میں کچھ اعداد کو شمار اور معمولی حذف و ترمیم کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے

دارالافتاء اہلسنّت تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات میں سے ایک اہم شعبہ ہے جو قبلہ شیخ طریقت امیر اہلسنّت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی امت ِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم کی خیرخواہی واصلاحِ مسلمین کی کڑھن کے نتیجے میں 15 شعبان المعظم 1421؁ھ بمطابق  2000؁ء کو معرضِ وجود میں آیا۔

          دارالافتاء اہلسنّت کا مرکزی اور سب سے پہلا دارالافتاء اہلسنت ’’جامع مسجد کنز الایمان جہانگیر روڈ بابری چوک کراچی ‘‘ پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ باب المدینہ کراچی اور کراچی سے باہر تا دمِ تحریر کل گیارہ(11) دارالافتاء اہلسنت قائم ہیں،پانچ دارالافتاء اہلسنت باب المدینہ کراچی میں، ایک حیدرآباد میں، دو مرکز الاولیاء لاہور میں، ایک سردارآباد (فیصل آباد) میں، ایک راولپنڈی اور ایک گلزارِ طیبہ (سرگودھا) میں قائم ہے۔ اس کے علاوہ مکتب ِافتاء کے نام سے دارالافتاء اہلسنّت کی ایک شاخ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں قائم ہے جہاں عوامی آمد و رفت تو نہیں ہوتی صِرْف مساجد و مدارِس کے وقف کے مسائل اور دعوتِ اسلامی کے تحت ہزاروں اَجیر اسلامی بھائیوں کے اِجارے سے متعلق شَرْعی مسائل کی رہنمائی کی جاتی ہے اوران دو موضوعات سے متعلق مسائل پر تحقیقی فتاویٰ بھی تحریر کئے جاتے ہیں۔ جبکہ افتاء مکتب کی ایک شاخ دار الافتاء اہلسنت داتا دربار لاہورمیں بھی قائم ہے۔یہ کل ملا کربارہ(12) شاخیں ہوئیںان تمام شاخوں میں علمائے کرام، نائب مفتی صاحبان اور مفتیانِ عظام اصلاحِ امت کے جذبہ کے تحت شرعی رہنمائی کے کام میں مصروفِ عمل ہیں۔

          دارالافتاء اہلسنّت میں شرعی رہنمائی کا عمل ہر ممکن طریقے سے جاری رہتا ہے لوگ بالمشافہ آکر اپنے روز مرہ کے دینی مسائل، خصوصی طور پر پیش آنے والے معاملات، تنازعات، ترکہ و وراثت، نکاح و طلاق الغرض ہرشعبۂ زندگی سے متعلق دینی مسائل پیش کرتے اور ان کا حل پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اسی طرح خطوط کے ذریعے استفادہ کا سلسلہ بھی ہوتا ہے، ای میل اور واٹس اپ کے ذریعے بھی لوگ اپنی دینی اُلجھنوں سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں، نیشنل اور انٹر نیشنل فون نمبرز کے ذریعے شرعی رہنمائی کا سلسلہ مقررہ اوقات میں جاری رہتا ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دارالافتاء اہلسنّت مکمل طور پر ایک فعال اِدارہ ہے۔

          دارالافتاء اہلسنّت در اصل اس اجتماعی کوشش اور جہد مسلسل کا ایک جزء ہے جو دعوتِ اسلامی قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے جاری رکھے ہوئے ہے۔

          دعوتِ اسلامی کی ویسے تو بہت ساری عمدہ خصوصیات اور بہت سارے فعال شعبہ جات ہیں لیکن ان میں سے چار بڑے ہی بنیادی شعبے ہیں۔

{1}    لاکھوں مبلغین کی تیاری و تربیت اور ان کی اصلاحِ اُمت کے لئے عملی جد و جہد۔

{2}      اُمت ِ مسلمہ کو صحت مند علمی مواد کی فراہی۔

{3}    ہر شہر و بستی تک عالم دین فراہم کرنے کے لئے جامعۃ المدینہ کا قیام۔

{4}    مسلمانوں کی دینی اور شرعی رہنمائی کے لئے دارالافتاء اہلسنّت کا قیام۔

لاکھوں مبلغین کی تیاری و تربیت اور ان کی عملی جد و جہد

          دعوتِ اسلامی جو ایک عالمگیر منظم دینی اور غیر سیاسی تحریک ہے اس کے دعوت و تبلیغ کے کام کا عملی ڈھانچہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک طرف ہزاروں، لاکھوں مبلغین ہیں جو یہ عزم لئے ہوئے ہیں کہ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔اِنْ شَآئَ اللّٰہ عَزَّوَجَل۔‘‘ اپنی اِصلاح و تربیت کا اہتمام جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک دین متین کی دعوت اور قرآن و سنّت کا پیغام عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں، یہ مبلّغین نہ صرف مساجد بلکہ بازاروں، اسکولوں، کالجوں بلکہ شہر شہر ،گائوں گائوں ،محلہ محلہ اور سینہ بسینہ نیکی کی دعوت عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اور نیکی کی دعوت کا یہ سلسلہ انتہائی منظم انداز سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جاری ہے اور اس سلسلہ کو مزید مؤثر بنانے کے لئے بہت ساری مجالس یعنی شعبہ جات بنائے گئے ہیں مثلاً وکیلوں کا شعبہ، ڈاکٹروں کا شعبہ، شعبۂ تعلیم، شعبۂ تاجِران بلکہ جیل خانوں تک میں قیدیوں کی اصلاح اور تربیت کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بہنوں میں نیکی کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کا جو سلسلہ ہے وہ الگ۔ جہاں دعوتِ اسلامی کے پیغام اور تربیت سے متاثر ہوکر ہزاروں لاکھوں اسلامی بہنوں نے خود کو نماز، روزے ،پردے اور دیگر شرعی احکام کا پابند بنایا ہے۔

          یہ مبلّغین صرف مسجد مسجد یا گھر گھر جا کر ہی نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوتے انٹرنیٹ اور اب اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مدنی چینل کے ذریعے بھی قرآن و سنّت کا پیغام عام کر رہے ہیں جس کی بدولت زندگیاں بدل رہی ہیں، مذہب سے لگائو اور دینداری بڑھ رہی ہے، لاکھوں نوجوان راہِ راست پر آئے ہیں دعوتِ اسلامی بننے کے بعد سے جتنی تعداد میں مذہبی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے و ہ اپنی مثال آپ ہے اوربڑے بڑے دینی کتب شائع کرنے والے اداروں کے مالکان کی تصدیق اس بات کا ثُبوت ہے کہ جتنی مذہبی کتب دعوتِ اسلامی سے وابَستہ لوگ خریدتے ہیں کوئی اور طبقہ نہیں خریدتا۔

          1981؁ء میںدعوتِ اسلامی کے آغاز اور ابتدا کے وقت کسی کو یہ احساس نہ تھا کہ آئندہ بیس پچیس سال بعد جدّت پسندی اور بے دینی کا طوفان ایک نئے انداز سے سر اُٹھانے والا ہے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی عملی حالت مزید سے مزید خراب ہونے والی ہے ، کچھ ابتری ان کے اپنے ہاتھوں اور اپنے ہی کرتوتوں کے باعث ہوگی تو کچھ پستی اور عملی کمزوریاں اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کی بدولت وقوع پذیر ہوںگی۔

          آپ زیادہ نہیں بیس پچیس سال پہلے کے وقت اور آج کے ماحول کا تقابل کرکے دیکھ لیںآپ پر واضح ہوجائے گا کہ روز بروز حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں۔

           زنا میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے؟ کہیں مساج سینٹر کے نام پر، کہیں ورائٹی شو کے نام پر، تو کہیں کیٹ واک کے نام پر حسن اور جسم کس طرح بک رہے ہوتے ہیں ان حالات سے کون واقف نہیں ؟

          آج سے بیس پچیس سال پہلے لوگوں نے صرف ڈاکہ زنی کا نام سنا تھا لیکن آج ہر دوسرا خاندان کسی نہ کسی طرح لٹیروں کے ہاتھوں اپنے مال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ سب جانتے ہیںکہ بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم، لوٹ مار کا  جو بازار آج گرم ہے آج سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

          فحاشی کا سیلاب ہے کہ تھمتا نظر نہیں آرہا، کیا کیانت نئے ذرائع فحاشی کے ایجاد ہو چکے ہیں، برائی صرف ایک کلک(Click) اوراُنگلی کی ایک حرکت کی دوری پر رہ گئی ہے اور ہر وقت دستیاب برائی کا نتیجہ سب دیکھ رہے ہیں۔ تین، چار، پانچ سال تک کے بچوں کے ساتھ آبرو ریزی اور پھر ان کو قتل کرنے کے جو واقعات پیش آرہے ہیں آج سے پہلے ایسے واقعات میں ایسی کثرت ہر گز نہ تھی۔

          بے پردگی کا جو گراف پہلے تھا آج نہ جانے وہ کتنے فیصد بڑھ چکا ہے ۔ عورتوں کے سروں سے دوپٹے اور کلائیوں سے آستینیں غائب ہو گئی ہیں شلوار کی جگہ عضو کی ہیئت اُبھارتے پاجامے اور جینزنے لینا شروع کردی ہے۔

          نفسا نفسی نے انسان کو آج خود کشی پر مجبور کر دیا ہے دیکھ لیں خود کشیوں کا گراف آج کس حد تک جا پہنچا ہے۔ ظلم ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لیتا چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت ،انتقامی کارروائیوں میں اندھا ہوناان سب باتوں نے خاندان کے خاندانوں کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

          پھر لوگوں کی معاشرتی زندگی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے گھرانے امن کا گہوارہ نہ رہے، عورتوں کی شوہروں پر جرأت و بے باکی اور نافرمانی، اور شوہروں کے مظالم و جفا عام ہیں۔ اولاد و والدین کے رشتے کی کمزوری ہے کہ ہمارے ملکِ پاکستان میں اولڈ ہاؤس معرضِ وجود میں آچکے ہیںجہاںاولاد کی طرف سے گھر سے نکالے ہوئے والدین سکون کے متلاشی اور بیزار زندگی کے دن گن گن کر کاٹ رہے ہیں۔

          کاروبار و تجارت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے بس مال آنا چاہئے، ملاوٹ اور دھوکے کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیںآج یہ کہا جائے کہ بڑے تاجروں کا نوے فیصد سے زیادہ طبقہ سودی معاملات میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہے تو بے جا نہ ہوگا۔پھر تجارت و کاروبار میں جو عقودِ فاسدہ کا ارتکا ب ہے اس کا گراف شایدپچانوے  فیصد سے بھی زیادہ ہو، رفتہ رفتہ ذرائع آمدنی میں حلال و حرام کی تمیز رکھنے والے لوگ کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔

          آج معاشرے کے گرتے ہوئے گراف اوربد عملی کی ایک بڑی وجہ جدید ذرائع کا غلط استعمال بھی ہے۔ موبائل کی مثال آپ کے سامنے ہے اس کا درست استعمال اپنی جگہ لیکن اس کے غلط استعمال سے کون واقف نہیں؟ رہی سہی کسر اِلیکٹرانک میڈیا نے پوری کر دی ہے سینکڑوں چینلز جو چاہے دکھا رہے ہوتے ہیں جہاں چاہے لوگوں کے ذہنوں کو موڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو روشن خیالی کے نام پر بے عملی کو پروان چڑھا یا جا رہا ہے تو دوسری طرف مذہب کی بنیادوں پر خفیہ طریقے سے حملے کئے جا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کتنے ہی ایسے پروگرام ہیں جو غیر ملکی فنڈنگ سے چل رہے ہوتے ہیں اور ان کے دیئے گئے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں اگر میڈیا کے غلط کاموں کاخلاصہ کیا جائے تونتیجہ یوں سامنے آتا ہے، میڈیا کے مذموم تین کام: فحاشی کرو عام ،مذہب ہو بدنام، لوگ ہو جائیں بے باک و بے لگام۔ ایسی سوچ لوگوں کو دی جا رہی ہے کہ وہ علماء سے دور ہو جائیں مَعَاذَ اللّٰہ اس معزز و قابل احترام طبقہ کو دقیانوس ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایک تو معاشرے نے پہلے ہی علمائے دین کو وہ عزت و مقام نہیں دیا جس کے یہ حضرات اہل ہیں اوپر سے میڈیا ہے کہ علماء پر طعن کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جو یا تو علم میں رسوخ نہیں رکھتے یا بد مذہب ہوتے ہیں ، اگر راسخ العلم ہوں تو انہیں بولنے ہی نہیں دیا جاتاپھر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مذہب کا نمائندہ بنا کرایسے نام نہاد لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جوبازاری اور گرے ہوئے موضوع اور بے توقیری کے ماحول میں بھی بحث کا حصہ بن کر ٹی وی میں آنے کا شوق رکھتے ہیں اور بڑے اہتمام سے ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے تا کہ لوگ علماء سے متنفر ہوں، یہ سب معاشرے کوسیکولر کرنے کی سازشیں ہیں غور کیجئے کیسے نازک حالات ہیں۔

          ایسے ماحول میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی کا بیس پچیس سال پہلے لگنے والا پودہ تن آور اور مضبوط درخت کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے جو لاکھوں لاکھ لوگوں کو برائیوں میں مبتلا ہونے سے روکے ہوئے ہے، جو  لوگوں کوگناہوں کی گرمی سے نکال کر اپنے ٹھنڈے اور گھنے سایہ میں لئے ہوئے ہے اور مزید لوگوں کی اصلاح کے لئے اپنی مسلسل کوشش جاری رکھے ہوئے ہے ۔بلا شبہ یہ ایک عظیم کام ہے یہی وجہ ہے کہ جیّد علمائے دین اور مفتیانِ کرام اس کام کی اہمیت و عظمت کو دیکھتے ہوئے دعوتِ اسلامی اور قبلہ شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری صاحب دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، ویسے تو اس سلسلے میں سینکڑوں علمائے کرام کے تأثرات موجود ہیں لیکن میں اہل فتویٰ میں سے صرف ایک کے کلماتِ جمیلہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ زمانہ قریب کے جیّد اور نامور عالم و مفتی اور مفتی گر حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاویٰ فقیہ ملت میں فرماتے ہیں: ’’سنی عوام میں بالخصوص کافی بدعملی پھیلی ہوئی ہے ان کی اکثر مسجدیں ویران ہیں راہِ سنت سے کافی دوری پائی جارہی ہے ایسے ماحول میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت تھی جو عوام میں پھیلی ہوئی بدعملی کو دور کرے، ویران مسجد کو آباد کرے، لوگوں کو راہِ سنت پر چلنے کی تلقین کرے اور ۔۔۔۔۔ عقائد باطلہ کی روک تھام کرکے مذہب ِاہلسنّت و مسلک ِاعلیٰ حضرت کو فروغ دے اور بحمداللہ تعالیٰ تحریک دعوتِ اسلامی اپنے منفرد طریقہ کار سے اپنے مشن میں کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہے۔ چنانچہ اپنے دور کے اہلسنّت و جماعت کے جید عالم دین، عظیم مفتی، شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ تحریر فرماتے ہیں: مولانا الیاس (امیر تحریک دعوتِ اسلامی) اتنا عظیم الشان عالمگیر پیمانے پر کام کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں بدعقیدہ، سنّی صحیح العقیدہ ہوگئے اور لاکھوں شریعت سے بیزار افراد شریعت کے پابند ہوگئے، بڑے بڑے لکھ پتی ،کروڑ پتی ،گریجوٹ نے داڑھیاں رکھیں، عمامہ باندھنے لگے، پانچوں وقت باجماعت نمازیں پڑھنے لگے اور دینی باتوں سے دلچسپی لینے لگے دوسرے لوگوں میں دینی جذبہ پیدا کرنے لگے۔‘‘ (ملتقطاً)                           (فتاویٰ فقیہِ ملّت ، صفحہ 436 ، جلد 2 ، شبیر برادرز لاہور)

            دعوتِ اسلامی کا مقصد محض لوگوں کو اپنی تحریک کا کارکن بنانا نہیں اور نہ ہی اس کا یہ طریقہ ہے کہ چار کلمات سکھاکر دو چار شہروں کے چکر لگوا کر لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور دین کا ٹھیکیدار بنا دیا جائے، نہیں ایسا کرنا ہرگز درست نہیںبلکہ ان کی مسلسل فکری تربیت اور تسلسل کے ساتھ انہیں صحت مند علمی مواد فراہم کرنا ضروری ہے اور  دعوتِ اسلامی میں یہ عمل اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات، مدنی مذاکروں،تربیتی اجتماعات ،مدنی تربیتی کورس، فرض علوم کورس، تجارت کورس،مدنی انعامات و مدنی قافلہ کورس کی صورت میں مہیا کئے جانے کے ساتھ ساتھ تحریر و تالیف کی صورت میں بھی جاری و ساری ہے ۔

صحت مند علمی مواد کی فراہمی:

        تحریری اور تصنیفی میدان میں ایک طرف قبلہ شیخ طریقت امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف و تالیف کے ذریعے یہ عظیم کام انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی مجلس شوریٰ کے تحت بھی بہت ہی مفید اور فکری رسائل وقتاًفوقتاً جاری ہوتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر اس کام کو مستقل اور مسلسل جاری رکھنے کے لئے دعوتِ اسلامی نے ’’المدینہ العلمیہ‘‘ کے نام سے جو تصنیفی اِدارہ قائم کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جہاں علمائے اہلسنّت کی قدیم کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ نئی تصانیف، تراجم اور تسہیل کا سلسلہ جاری ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ پاک و ہند میں اہلسنّت و جماعت کا یہ سب سے بڑا تصنیفی اِدارہ ہے جہاں بیک وقت سو سے زائد علماء تصنیف و تالیف، تراجم و تخریج اور خدمت ِ کتب میں لگے رہتے ہیں ۔ اب تک527 کی تعداد میں شائع ہونے والی اصلاحی، ترغیب و ترہیب اور فقہی موضوعات سے متعلق کتب اس اِدارے کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہر شہر و بستی تک عالم دین فراہم کرنے کا عزم:

          اصلاحِ معاشرہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر بستی میں علمائے دین موجود ہوں۔اس عظیم فریضہ اور ہدف کو پورا کرنے کی دعوتِ اسلامی مسلسل کوشش کر رہی ہے جو ملک اور بیرونِ ملک اب تک جامعۃ المدینہ کے نام  سے کل 424 جامعات المدینہ  (للبنین) یعنی اسلامی بھائیوں کے لئے اور ( للبنات)یعنی اسلامی بہنوں کے لئے قائم کر چکی ہے۔ جہاں پر اس وقت بھی بتیس ہزار(32000) سے زائد طلباء اور طالبات درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں اور درسِ نظامی کی تعلیم پا کراب تک سینکڑوں اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں سند فراغت حاصل کر چکی ہیں اور بہت بڑی تعداد میں یہ حضرات تدریس و تصنیف اور دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف عمل ہیں ۔

مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لئے دارالافتاء اہلسنّت کا قیام

          تین اہم ترین اداروں کے بعد اب چوتھے اہم ستون کی طرف آئیے! یہ ہے ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ عام مبلغین کا کام لوگوں کو دین کی طرف لانا ہے لیکن وہ اَحکام کی تشریح و توضیح نہیں کرسکتے۔تصنیفی کام بھی محتاجِ تفتیش اور صحت مند ہونے کی شرط سے مشروط ہے۔ ہر فارغ التحصیل بھی ایک حد تک شرعی رہنمائی کر سکتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ پیش آنے والے ہر مسئلہ کے جواب اور تنقیح پر قادر ہوکیونکہ اس کے لئے الگ سے تربیت، مہارت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسے میں ضرورت پیش آتی ہے ایسے کہنہ مشق افراد کی جو دین کی تشریح و توضیح کرنے کے اہل ہوں، تصنیفی امور میں مقاصد شریعت کی روح کو برقرار رکھ سکیں اور لکھنے والوں کی ضرورت ِتفتیش اور تربیت کے عمل میں معاون رہیں۔ یونہی امت ِمسلمہ کودرپیش مسائل کا فوری حل قرآن و سنت کی روشنی میں بتا سکیں۔ یہی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی نے دارالافتاء اہلسنّت قائم کیا ہے۔

          دارالافتاء اہلسنّت شرعی احکام پر فوری رہنمائی دینے کا ایک فعال اِدارہ ہے ۔جو فقہ اسلامی کے ہر شعبہ سے متعلق مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لوگ براہ ِراست آکردینی احکام سے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں، دارالافتاء کے فون پر، خط بھیج کر، میل روانہ کر کے نیز واٹس اپ کے ذریعے اپنا مسئلہ بیان کر کے جواب حاصل کرتے ہیں اور درپیش شرعی احکام پر مطلع ہوتے ہیں۔

دار لاافتاء اہل سنت مجلس افتاء کے چار مفتیان کرام کی نگران میں کام کر رہا ہے

(1)    قبلہ مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ  نگران مجلس

(2)    قبلہ مفتی فضیل صاحب

(3)    راقم الحروف ابو محمد علی اصغر

(4)    قبلہ مفتی ہاشم صاحب زیدمجدہ

      مجموعی طور پر دارالافتاء اہلسنّت کی خدمات کودس مختلف سمتوں سے دیکھا جا سکتا ہے:

{1}    وقوع پذیرمسائل کا شرعی حل

          ویسے تو تمام ہی دارالافتائوں میں رجوع کرنے والے سائلین کی اکثریت وہ ہوتی ہے جو کوئی مسئلہ درپیش ہونے کے بعد شرعی رہنمائی کے لئے رجوع کرتی ہے۔ مثلاً طلاق دے دی گئی اب حکم معلوم کرنے دارالافتاء آئیں گے، کسی کا انتقال ہو گیا اب تقسیم ترکہ کے لئے دارالافتاء کی طرف رجوع ہوگا۔ نماز، روزہ، حج ،زکوٰۃ میں کوئی غلطی ہوگئی، قسم یا منّت مانی تھی وہ ٹوٹ گئی، یہ وہ مسائل ہیں جنہیں حادثاتی مسائل یا نوازل کہا جاتا ہے کہ جب یہ معاملات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں تو ان مسائل کے نتائج جاننے اور آئندہ زندگی پر کیا احکامات لاگو ہوں گے ان کی آگاہی کے لئے مسلمان علمائے کرام اور دارالافتاء کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں۔

{2}    روزہ مرہ اور معلوماتی مسائل پوچھنے والے سائلین کے جوابات

          پہلی قسم کے سائلین اور دارالافتاء میںآنے والے مسائل کی قسم وہ تھی کہ جس میں معاملہ ہونے کے بعد لوگ رجوع کیا کرتے ہیں لیکن دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول کی برکت ہے کہ ذمے دارانِ دعوتِ اسلامی مفتیانِ کرام سے شرعی رہنمائی لینے کے لئے لوگوں کا وقتاً فوقتاً ذہن بناتے ہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دارالافتاء اہلسنّت کا یہ خاصہ ہے کہ یہاں حادثاتی سائلین ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی تعداد میں معلوماتی سائلین کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے، یہ وہ سائلین ہوتے ہیں جواپنے شعبۂ زندگی میں غلطیوں سے بچنے کے لئے شرعی رہنمائی لینے اور دینی احکام معلوم کرنے آئے ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کا حج یا عمرہ کا ارادہ ہے تو وہ کتابیں پڑھنے کے بعد جو اس کے ذہن میں سوالات قائم ہوتے ہیںاس کی ایک لسٹ بنا کر دارالافتاء آیا ہوتا ہے اور اپنی عبادت کی بہتر ادائیگی سے متعلق سوالات کر کے دارالافتاء میں موجود علماء و مفتیانِ دین سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ کوئی کاروبار و تجارت شروع کرنے سے پہلے یا کوئی سودا کرنے یا کسی نوکری کے انٹرویو سے پہلے اس کے حلال و حرام سے متعلق رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔کوئی اپنی جائیداد کی تقسیم کا موضوع لئے دار الافتاء میں حاضر ہوتا ہے کہ میری زندگی میں یا میرے مرنے کے بعد یہ کس طرح تقسیم ہو گی،مختلف نئی مساجد کی تعمیرات یا پرانی مساجد کی تعمیراتِ نو کو لے کر اہلِ محلہ یا کمیٹیاں آئی ہوتی ہیں کہ وقف کے مسائل کی رُو سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں ،یونہی اجتماعی قربانی کروانے والے بھی رجوع کیا کرتے ہیں کہ ہماری حیثیت کیا ہے اور ہمارے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ؟یہ چند مثالیں تھیں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کہ بہت سارے لوگ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کسی معاملے کو اختیار کرنے سے پہلے علماء اور مفتیانِ کرام سے شرعی رہنمائی لے کر اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں اگرچہ قبل اَز اِبتدائے معاملہ شرعی راہنمائی لینے کا عمل ابھی تک اطمینان بخش حد تک تو نہیں لیکن لوگوں میں بیداری کی ایک لہر ضرور پائی جاتی ہے اور یہ لہر بہت ساروں کوعلمائے کرام تک لے بھی آتی ہے ۔

{3}    فوری فوری حل کے لئے دارالافتاء اہلسنّت کی خدمات

          شہر، بیرونِ شہر اور بیرونِ ملک سے روزانہ سینکڑوں سائلین فون کے ذریعے اپنے دینی مسائل معلوم کرتے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد ایسے مسائل کی بھی ہوتی ہے جن کا فوری جواب ضروری ہوتا ہے مثلاً کوئی فون کر کے پوچھتا ہے کہ بیمار بکری ذبح کی، چھری چلتے وقت صرف اس کے پائوں میں ذرا سی حرکت ہوئی اس کی کھال اُتاری جائے یا نہیں؟ یہ حلال ہے یا حرام؟ کوئی فون کر کے کہتا ہے کہ امام سے نماز میں یوں غلطی ہو گئی ہے ابھی لوگ مسجد میں ہی موجود ہیں بتائیں نماز ہوگئی یا دوبارہ پڑھی جائے؟ کوئی میّت کو غسل دینے کے لئے جاتا ہے اور پوچھتا ہے میّت کا جسم غسل دینے کے قابل نہیں جلنے سے موت واقع ہوئی ہے اسے غسل دیں یا نہیں؟ کسی کی ٹینکی میں کوئی جانور مرا ہواپایاجاتا ہے وہ فون کر کے پوچھتا ہے کہ اس پانی کا کیا کیا جائے؟ کوئی مسافر فون کر کے پوچھتا ہے کہ میں فلاں جگہ سے فلاں جگہ پہنچا ہوں نماز کا وقت ہے قصر پڑھوں یا پوری؟ بلکہ ایام حج میں حاجی صاحبان سر زمین حرم سے مناسک حج میں ہونے والی غلطیوں پر فوری فوری رہنمائی لے رہے ہوتے ہیں کوئی طواف کا پوچھتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ سعی کئے بغیر سر منڈا دیا تو کوئی رَمی سے متعلق پوچھتا ہے تو بعض دفعہ اسلامی بہنوں کو طوافِ زیارت کرنا ہوتا ہے کہ شرعی مجبوری آجاتی ہے ایسے میں لوگ مسائل معلوم کرتے ہیں تو کوئی اپنے کسی اور منسک سے متعلق یا رکن کی ادائیگی سے پہلے یا غلطی ہو جانے کی صورت میں ادائیگی کے بعد سر زمین حرم سے فون پر شرعی رہنمائی حاصل کرتا ہے۔عجیب بات ہے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بکرا منڈی اور گائے منڈی سے فون کر کے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ جانور کا کان اتنا کٹا ہوا ہے یا اس میں فلاں عیب ہے قربانی ہو جائے گی یا نہیں یہ جانور خرید لیں یا نہیں؟

          غور کیجئے کہ یہ کتنے نازک مسائل ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر فرد کو اپنے متعلقہ اور پیش آمدہ دینی مسائل سے پہلے ہی واقفیت ہوتی لیکن معاشرے کی عملی ابتری اس سے مانع ہے ایسے میں اگر لوگ عین وقت پر تشویش میں مبتلا ہوتے ہوں اور شرعی رہنمائی چاہتے ہوں تو دارالافتاء اہلسنّت کے نیشنل اور انٹر نیشنل فون نمبرز کے ذریعے مقررہ اوقات میں ہاتھوں ہاتھ شرعی مسائل معلوم کرنے کی سہولت موجود ہے ۔جہاں سائلین فون کے ذریعے بھی اپنے ضروری مسائل دریافت کر کے اپنی دینی اُلجھن دور کر سکتے ہیں۔

{4}    باہم تنازعات کا تصفیہ اور شرعی اصولوں پر فیصلہ

          تنازعات زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں عقلمند لوگ انہیں خوش اسلوبی سے طے کرتے ہیں جبکہ جاہل لوگ انہیں دشمنی اور انتقام کا رنگ دے کر نہ ختم ہونے والی بے چینی اور جہالت کا روپ دے دیتے ہیں۔دارالافتاء اہلسنّت لوگوں کے باہمی تنازعات کا بھی مؤثر اور شرعی حل دے کر لوگوں کی دینی اُلجھن کو دورکرتے ہوئے انصاف پر مبنی طریقہ بتا کر شرعی رہنمائی کرتا ہے۔کسی کے پیسوں کے لین دین کا معاملہ ہوتا ہے ،فریقین دارالافتاء آکر اپنا مسئلہ حل کرتے ہیں شہادت یا قسم پر فیصلہ یا تصفیہ کی صورت بنتی ہے ۔کہیں شرکاء ترکہ کی تقسیم میں اُلجھن کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں شرکاء یا ان کے نمائندے دارالافتاء آکر مسئلہ حل کرواتے ہیںکہیں امام مسجد اور نمازیوں کی ٹھنی ہوتی ہے، مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایک امام مسجد اور نمازیوں کا مسئلہ تھا دارالافتاء میںباب المدینہ کراچی کے ایک علاقے سے چھت سمیت پوری بس بھرکر آئی تھی اس بات کا فیصلہ کروانے کہ درست کون ہے اور غلط کون؟ یونہی کبھی فریقین یعنی میاں بیوی کا اختلاف ہوجاتاہے ایک کہتا ہے طلاق دی دوسرا کہتا ہے نہیں دی، کہیںحرمت رضاعت کا اختلاف ہوتا ہے تو کہیںدعویٔ مصاہرت اور جانب مخالف سے انکار، ایسے میں فریقین کو بلا کر دونوں کی بات سن کر شہادت اور حلف کے تقاضے پورے کر کے واضح حکم بیان کیا جاتا ہے۔

{5}    بد مذھب اور کفار کا آکر مکالمہ کرنا کفرو شرک اورگمراہی سے تائب ہونا

          دارالافتاء اہلسنّت میں وقتاً فوقتاً یہ معاملہ بھی رہتاہے کہ کبھی کسی بد مذہب کو کوئی صاحب لے آئے کہ انہیں یہ یہ اِشکالات ہیں اور ان کے پاس یہ یہ دلائل ہیںاَلْحَمْدُ لِلّٰہ دارالافتاء میں موجود علما ء ان کے اِشکالات کو رفع کرتے ہیں ان کے دلائل کا مدلل جواب دیتے ہیں آنے والا اکثر مطمئن اور تائب ہو کر ہی جاتا ہے۔ مختلف مواقع پر غیر مسلم بھی آتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ ایک قادیانی کو میرے پاس لایا گیا لانے والے اس کے رشتہ دار تھے اور باہر کے کسی ملک میں رہنے کے باعث وہ قادیانی ہو گیا تھا اس کو سنا گیا اس کو بتایا گیا کہ حق کیا ہے دلائل دئیے گئے کتابیں دکھائی گئیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ وہ مسلمان ہو گیا۔ ابھی دو چار ماہ قبل ہی ایک نصرانی نوجوان کو ایک صاحب لے کر آئے کہ ان کو کچھ سوالات اسلام کے بارے میں کرنے ہیں دو تین گھنٹے اس سے گفتگو ہوئی اور اختتام اس بات پر ہوا کہ اصل انجیل منگوا کر اس سے آپ کو دکھاتے ہیں کہ خود انجیل کے نسخوں میں کتنا تضاد ہے اور یہ تضاد تحریف کی علامت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ نصاریٰ دین سیِّدنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم پر نہیں ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہاگلی نشست کے بعد وہ نوجوان مسلمان ہوگیا۔ تو اس طرح کے متعدد واقعات دارالافتاء اہلسنّت کی مختلف شاخوں میں ہوتے رہے ہیں اور علماء کی موجودگی کا جو اہل شہر پر فرض کفایہ ہے بِحَمْدِہٖ تَعَالیٰدارالافتاء اہلسنّت کی مختلف شہروں میں واقع شاخیںاس ضرورت کو پورا کرنے میں کوشاں ہے۔

{6}    تحریری فتاویٰ کا سلسلہ

          فون ،زبانی اور بالمشافہ دینی اور شرعی رہنمائی کے ساتھ ساتھ دارالافتاء اہلسنّت سائلین کو تحریری صورت میں بھی جوابات لکھ کر دیتا ہے جو اُن کے مسائل سے متعلق تحقیقی کلام پر مشتمل اور فقہی جزئیات سے مبرہن ہوتے ہیں بعض لوگ اپنا سوال خود جمع کرواکر تحریری جواب حاصل کرتے ہیں بعض لوگ خط بھیج کر جواب طلب کرتے ہیں اور بہت بڑی تعداد کو ای میل کے ذریعے تحریری فتاویٰ ارسال کئے جاتے ہیں۔ اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق دارالافتاء اہلسنّت سے ایک لاکھ سے زائد تحریری فتاویٰ جاری ہو چکے ہیں جو کل پندرہ سال کے عرصہ میں جاری ہونے والے فتاویٰ کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔ اتنے کم عرصے میں اتنے زیادہ تحریری فتاویٰ اور سائلین کی مراجعت کی مثال اب تک نظر سے نہیں گزری۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اسی ذخیرہ اور ڈیٹا سے چند فتاویٰ کا انتخاب آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔جس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ کس کس طرح کے مسائل پوچھتے ہیں اور ان کے جوابات میں ان کی کس طرح رہنمائی کی جاتی ہے ۔

{7}    بیرونِ ملک اور دور دراز کے مسلمانوں کی علماء تک آسان رسائی

          دارالافتاء اہلسنّت کی ای میل سروس اور ویب سائٹ پر سوال پوسٹ کرنے کی سہولت سے سب سے زیادہ بیرونِ ملک رہنے والے مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ جہاں باقاعدہ کوئی عالم دین نہیں ہوتا یا ہوتا بھی ہے تو بہت دور یا جن کا یا تو علم ہی نہیںہوتا یا پھر وقت کی کمی اور فاصلوں کی طوالت مراجعت سے مانع ہوتی ہے ۔پھر وہ عالم اس کا مسئلہ حل کرنے کا ادراک رکھتا بھی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے کیونکہ حقیقی معنوں میںجو عالم ہو وہ تو ضرور روزمرہ کے مسائل کی بہتر دینی رہنمائی کر سکتا ہے لیکن ہمارے ہاںہر امام مسجد کو ہی عالم بلکہ علامہ کہہ دیا جاتا ہے ،اوربعض توان میں ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے بسا اوقات مذہبی تعلیم بھی پوری حاصل نہیں کی ہوتی تو ایسے افراد یقینی طور پر فقہ اسلامی کے تمام شعبہ جات میں شرعی رہنمائی پر قادر نہیں ہوتے ایسے میں بیرون ملک کے رہنے والوں کو دار الافتاء اہلسنّت نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ فون کے علاوہ دو مختلف انداز میں اپنے مسائل کا حل پوچھ کر شرعی رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔

          ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ دار الافتاء اہلسنت کے واٹس اپ نمبر پر سوال پوسٹ کر دیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دارالافتاء اہلسنّت کے میل ایڈریس darulifta@dawateislami.netکے ذریعے رابطہ کیا جائے۔

{8}    تنظیمی شرعی رہنمائی

          دارالافتاء اہلسنّت کی خدمات میں یہ پہلو بھی نمایاں ہے کہ دعوتِ اسلامی جو ایک عالمگیر تحریک ہے اسے روزبروز شرعی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی وقف اور چندے کے مسائل میں کبھی کسی نکتے پر تو کبھی کسی نکتے پر جہاں کہیں بھی تنظیمی ذِمَّہ داران شرعی رہنمائی طلب کرتے ہیں ان کی شرعی رہنمائی کی جاتی ہے۔اس مقصد کے لئے بطور خاص عالمی مدنی مرکز فیضا ن مدینہ باب المدینہ اور دار اہل الافتاء اہل سنت داتا دربارلاہور پر مکتب افتاء کے نام سے خصوصی ڈیسک قائم کی گئی ہے جہاں تنظیمی ذمہ داران اپنے شعبہ جات پر شرعی رہنمائی حاصل کرتے ہیں

{9}    تحقیقاتِ شرعیہ

           دعوتِ اسلامی کے دارالافتاء اہلسنّت کے مفتیانِ کرام اور نائب مفتی صاحبان پر مشتمل عصر حاضر کے مسائل کو حل کرنے کے لئے’’ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ‘‘بھی اپنا وجود رکھتی ہے جو گاہے بہ گاہے مختلف اُمور پر اپنے مشورے منعقد کر کے بحث و تمحیص کے بعد نت نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

{10}  تربیتِ افتاء

          فارغ التحصیل حضرات کو مزید علمی ترقی اور حقیقت میں عالم بنانے کے لئے مجلس افتاء کے تحت’’ تَخَصُّصْ فِی الْفِقْہ‘‘ کا دو سالہ کورس ہوتا ہے جس کے بعد مزید پانچ سے دس سال کے تدریب افتاء میں مختلف مراحل طے کرتے ہوئے کوئی شخص مفتی بن سکتا ہے اس کا بھی ایک باقاعدہ مرتب سلسلہ ہے جس پر ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے مطابق مختلف مراحل طے کرتا ہے ۔تربیت کا یہ سلسلہ اس مقصد کے تحت ہے کہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئے بہترین اور مضبوط علماء اور مفتی حضرات پیدا کئے جائیں جو خلق خدا کی دینی و شرعی رہنمائی کر سکیں۔

          ان چند سطور میں آپ نے دعوتِ اسلامی کی اہمیت اور کام کے ساتھ ساتھ دعوت اسلامی کے بعض شعبہ جات کے علاوہ خاص طور پر دار الافتاء اہلسنّت کے حوالے سے یہ ملاحظہ کیا کہ یہ کس کس طریقے سے اُمت مسلمہ کی خدمت ِ دینی کا ایک اہم شعبہ ہے۔

                                                طالب دعا

                                                ابو محمد علی اصغر العطاری المدنی